تقویٰ و پرہیزگار
ارشادِ باری تعالیٰ ہے.
ارشادِ باری تعالیٰ ہے.
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرتے رہا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم دوزخ کی آگ کے گڑھے کے کنارے پرپہنچ چکے تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔(سورۂ آل عمران۱۰۲ تا ۱۰۴)
ان آیات میں اللہ رب العزت نے خصوصیت کے ساتھ اپنے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کے علاوہ سب کو اجتماعی طور پر دین پرمضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی ہے اور فرقہ واریت کا شکار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اب آیا یہ تقویٰ ہے کیا کہ جس کے اختیار کرنے کا اس آیت میں حکم دیا جارہا ہے۔
تقویٰ ’’وقٰی‘‘ اور ’’وِقایۃ ‘‘ سے بنا ہے جسکا معنی ہے بچنا ،حفاظت کرنا ،پردہ کرنا اور خوف کرنا وغیرہ۔’’وقٰی ‘‘ اور’’وِقایۃ‘‘ کا معنی ہے کسی چیز کو ایذاء اور ضرر سے محفوظ رکھنا۔ سورۂ دُخان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَوَقٰھُمْ عَذَابَ الْجَحِیْم۔ ’’اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب دوزخ سے محفوظ رکھا۔ ‘‘چنانچہ’’تقویٰ ‘‘کا لغوی معنی ہے نفس کو اس چیز سے محفوظ رکھنا جس سے اسے ضرر کا خوف ہو۔
https://healthandwealthwithexercise.blogspot.com
اصطلاحِ شریعت میں انسان کا ان کاموں سے بچنا جو اس کے لئے آخرت میں غضب خداوندی کا باعث ہوں، تقویٰ کہلاتا ہے۔ اپنے آپ کو اپنے رب کی ناراضی سے بچانا تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے، جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں، جو راستے کو روشن کرتی اور اسی کی بدولت گمراہ بھی ہدایت پاجاتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعے برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔
’’ تقویٰ‘‘ کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان شرک ،کبیرہ گناہ اور بے حیائی کے کاموں سے بچے۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت امام حسنؓفرماتے ہیں :’’ تقویٰ یہ ہے کہ تم ہر کسی کو اپنے سے بہتر سمجھو اور اپنے آپ کو ہر کسی سے حقیر اور کم ترجانو۔‘‘حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے صاحبزادے فرماتے ہیں : ’’ تقویٰ صرف دن کو روزہ رکھ لینے اور رات کو عبادت کے لئے قیام کرنے کا نام نہیں، بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، اس سے بچے اور جو فرض کیا ہے اسے ادا کرے۔
https://healthandwealthwithexercise.blogspot.com
حضرت کعب الاحبار ؓسے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے پوچھا ! مجھے بتائیے تقویٰ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا آپ کبھی خار دار دشوار راستے سے گزرے ہیں؟ آپ نے فرمایا !ہاں تو حضرت کعب الاحبار ؓ نے پوچھا، بتاؤ خاردار جھاڑیوں والے راستے سے گزرتے ہوئے تمہارا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا، ڈرتا ہوں۔ دامن بچا کر چلتا ہوں یعنی نہایت احتیاط سے دامن سمیٹ سمیٹ کر قدم بچا بچا کر گزر تا ہوں، اس خدشے کے پیش نظر کہیں دامن چاک نہ ہو جائے ، کہیں پاؤں زخمی نہ ہو جائے، جسم چھلنی نہ ہو جائے۔حضرت کعب الاحبارؓ نے فرمایا، بس یہی تقویٰ ہے کہ گویا یہ دنیا ایک خاردار جنگل ہے، دنیاوی لذات اور خواہشات نفسانی اس کی خاردار جھاڑیاں ہیں جو ان خواہشات و لذات کے پیچھے چلا گیا، اس نے اپنا دامن تار تار کر لیا اور جو بچ گیا، وہ صاحب تقویٰ ہوا۔
تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے، البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعے ہوتا ہے۔
جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.
تقویٰ یہاں ہے۔ (صحیح مسلم)غرض تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرمﷺ کے طریقے کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔
حضرت علی ؓ کا ارشاد گرامی ہے.
معصیت پر اصرار نہ کرنا اور اپنی عبادت پر ناز و اعتماد نہ کرنا تقویٰ ہے۔‘‘حضرت ابو دردا ءؓ نے فرمایا :’’تقویٰ ہر قسم کی بھلائی کا جامع ہے یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کو حکم دیا ہے۔‘‘
تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ قرآنِ مجید میں دو سو چھتیس سے زائد آیات ایسی ہیں جن میں مختلف انداز میں تقویٰ ہی کا بیان ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیائےکرامؑ تشریف لائے، سب ہی نے اپنی اپنی امتوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت وتاکید کو ذکر کیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے.
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ (سورۃ الاحزاب 70) (ترجمہ)اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔ (سورۃ التوبہ119)(ترجمہ) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو۔ (سورۃ الحشر 18) تقویٰ کوئی ایسا عمل نہیں جو صرف اِس امت کے لئے خاص ہو، بلکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ سے ڈر کر زندگی کے ایام گزارے۔
فرمان الٰہی ہے.
ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کوبھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کی ہے کہ اللہ سے ڈرو۔ (سورۃ النساء131)
تقویٰ وپرہیزگاری انسانی زندگی کاشرف ہےاور تقویٰ انسانی زندگی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہےاور یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور قرب آسان ہوجاتاہے۔ تمام عبادات کا بنیادی مقصد بھی انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اسے بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔ ۔ اللہ تعالیٰ کو تقویٰ پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ تقویٰ دین داری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔’’تقویٰ‘‘ اصل میں وہ صفت عالیہ ہے جو تعمیر سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ عبادات ہوں یا اعمال و معاملات۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مقصد و فلسفہ، روحِ تقویٰ کے مرہون ہے۔ خوفِ الٰہی کی بنیاد پر انسان کا اپنے دامن کا کبیرہ گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کا نام تقویٰ ہےاور اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کاہر کام گناہ کہلاتا ہے۔
https://healthandwealthwithexercise.blogspot.com
حضرت انس ؓنے (اپنے زمانے کے مسلمانوں کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں، لیکن ہم ان کاموں کو رسول اللہ ﷺکے زمانے میں موبقات یعنی ہلاک کرنے والے کاموں میں شمار کرتے تھے۔(صحیح بخاری )
مطلب یہ ہے کہ تم لوگ ایسے کام کرتے ہو اور ایسی ایسی چیزیں اختیار کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بہت معمولی درجے کی اور بہت حقیر ہیں، زیادہ سے زیادہ تم انہیں مکروہات میں شمار کرتے ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کام اور وہ چیزیں بڑی نقصان دہ ہیں اور بڑی تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں، چناںچہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ہم لوگ ایسے کاموں کو بھی ان کاموں میں شمار کرتے تھے جو اخروی انجام کے اعتبار سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں۔ (مظاہر حق )
ایک حدیث میں ہے، حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عائشہؓ! تم اپنے آپ کو ان گناہوں سے بھی دور رکھو جنہیں معمولی اور حقیر سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ ان گناہوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مطالبہ کرنے والا بھی ہے۔(ابن ماجہ والدارمی)
علمی وعملی ترقی میں حلال و پاکیزہ کمائی کا بہت بڑا دخل ہے کہ حلال کھانے پر قلب میں ایک نورانیت محسوس ہوتی ہے جس سے نیک اعمال کی توفیق میسر آتی ہے اور حرام و مشتبہ کھانے پر قلب میں ایک ظلمت سی چھا جاتی ہے جس سےنیکی کی توفیق بھی سلب ہوجاتی ہے اور ترقی کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں اکل حلال کے بعد عمل صالح کی ترتیب سے اسی طرف اشارہ ہے کہ ترقی اور صالح زندگی کی بنیاد میں اکل حلال کو بڑا دخل ہے۔
ہمارے اسلاف کی زندگیاں تقویٰ وطہارت سے مزین تھیں، احکام شرع میں اپنی ذات کے بارے میں معمولی معمولی چیزوں میں بہت زیادہ احتیاط برتتے تھے۔حضرت امام بخاریؒ فرماتے تھے کہ ”جس وقت سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ غیبت حرام ہے، میں نے کسی کی غیبت نہیں کی، قیامت کے دن غیبت کے بارے میں کسی کا ہاتھ میرے دامن میں نہیں ہوگا۔ احمد بن فقیہؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوالحسن اشعریؒ کی بیس سال خدمت کی، میں نے ان سے زیادہ محتاط، باحیا، دنیوی معاملات میں شرمیلا اور امور آخرت میں مستعد نہیں دیکھا۔(تاریخ دعوت و عزیمت)
امام ترمذیؒ تقویٰ، زہد اور خوف خدا اس درجہ رکھتے تھے کہ اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا، خوف الٰہی سے بکثرت روتے روتے آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ امام نسائیؒ کے حالات میں ہے کہ زہد و تقویٰ میں یکتائے روزگار تھے صوم داودی پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے تھے۔ علامہ سید شریف جرجانیؒ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’التعریفات ‘‘میں لکھتے ہیںکہ آدابِ شریعت کی حفاظت کرنا اور ہر وہ کام جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے دور کر دے، اس سے خود کو باز رکھنا تقویٰ ہے۔‘‘
تمام تعریفیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور تقویٰ کے مختلف درجات کو کسی نہ کسی جہت سے حاوی ہیں۔ تمام تعریفات کو مدِ نظر رکھ کر تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہوا۔ مامورات کو بجالانا اور منہیات سے بچنا یعنی نیک کام کرنا اورگناہ اور بدی سے بچنا، اپنی زندگی کے شب و روز حسبِ استطاعت اتباعِ شریعت میں گزارنا تقویٰ ہے۔
اللہ سے ڈرنے اور اس سے تقویٰ اختیار کرنے کا حق تو یہ ہے کہ مومن تادمِ مرگ سجدہ سے سر ہی نہ اُٹھائے ،تقویٰ کا حق ادا کرنا بندوں کے بس کی بات ہی نہ تھی۔چنانچہ اللہ نے اپنے حکم میں نرمی فرماتے ہوئے سورہ تغابن میں ارشاد ہوا.
’’جتنا تم سے ہو سکے اتنا تو اللہ سے تقویٰ اختیار کرو‘‘
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو تقویٰ اختیار کرنے اور تمام گناہوں اور برائیوں سے حتی المقدور بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
https://healthandwealthwithexercise.blogspot.com
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں